دل کھوٹا ہے ہم کو اس سے راز عشق نہ کہنا تھا
گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے اتنا سمجھے رہنا تھا
کیوں ہنستے ہو میں جو برہنہ آج جنوں کے ہاتھوں ہوں
کچھ دن گزرے میں نے بھی بھی رنگ لباس اک پہنا تھا
نزع کے وقت آئے ہو تم اب پوچھ رہے ہو کیا مجھ سے
حالت میری سب کہہ گزری جو کچھ تم سے کہنا تھا
آ کے گیا وہ رویا کین یہ حرج ہوا نظارے میں
آنکھیں کچھ ناسور نہیں تھیں جن کو ہر دم بہنا تھا
ہمت ہارے جی دے بیٹھے سب لذت کھوئی اے شوقؔ
مرنے کی جلدی ہی کیا تھی عشق کا غم کچھ سہنا تھا
غزل
دل کھوٹا ہے ہم کو اس سے راز عشق نہ کہنا تھا
شوق قدوائی