دل کھو گیا ہمارا کسی سے ملا کے ہاتھ
ہو دسترس تو کاٹیے دزد حنا کے ہاتھ
اک تسمہ رہ گیا ہے رگ جاں کا لگا ہوا
جھوٹا پڑا ہے آہ کہاں ان کا جا کے ہاتھ
ہاتھوں پہ ہم کو ناگ کھلانے کی مشق ہے
چھوتے ہیں ہم جبھی ترے گیسو بڑھا کے ہاتھ
پھیلا لے پاؤں کھول کے دل اے شب فراق
بیٹھے ہیں ہم بھی زیست سے اپنی اٹھا کے ہاتھ
کیوں ہاتھ پاؤں میرے خوشی سے نہ بھول جائیں
انگلی چبھووے ہاتھ میں جب وہ ملا کے ہاتھ
وہ آڑے ہاتھوں لوں کہ اکڑ ساری بھول جائے
منہ کی نہ کھانا شیخ جی ہم سے ملا کے ہاتھ
سرسوں جمانی ہاتھوں پہ یوں سیکھ لے کوئی
دل سے ملا لیا ہے دل ان سے ملا کے ہاتھ
یہ بیکسی کے ہاتھوں ہوا ہے ہمارا حال
پیغام بھیجتے ہیں ہم ان کو صبا کے ہاتھ
کیفیؔ نہ نازکی پہ تم اس بت کی بھولنا
دیکھے نہیں ابھی کسی نازک ادا کے ہاتھ
غزل
دل کھو گیا ہمارا کسی سے ملا کے ہاتھ
دتا تریہ کیفی