دل کے زخموں کی لویں اور ابھارو لوگو
آج کی رات کسی طرح گزارو لوگو
روٹھ کر زندگی کیا جانے کدھر جانے لگی
اس طرح دوڑو ذرا اس کو پکارو لوگو
کتنی سج دھج ہے نگار غم و آلام کی آج
اس کی شوخی کو ذرا اور نکھارو لوگو
سر خوشی اب بھی تماشائی ہے میخانے میں
اس ستم گر کو تو شیشے میں اتارو لوگو
شہر دل میں یہ گھٹا ٹوپ اندھیرا کیوں ہے
پھر کسی چاند سی صورت کو پکارو لوگو
شمع احساس بجھا کر ہیں سر عرش بریں
اس بلندی سے ہمیں تم نہ اتارو لوگو
لو شعیبؔ آ ہی گیا قافلۂ درد کے ساتھ
جان و دل تم بھی کہیں آج نہ ہارو لوگو

غزل
دل کے زخموں کی لویں اور ابھارو لوگو
شاہد احمد شعیب