دل کے زخم جلتے ہیں دل کے زخم جلنے دو
ہم کو ٹھوکریں کھا کر آپ ہی سنبھلنے دو
روشنی فصیلوں کو توڑ کر بھی آئے گی
رات کی سیاہی کو کروٹیں بدلنے دو
سائباں کی خواہش میں اک سفر ہوں صحرا کا
جسم و جاں پگھلتے ہیں جسم و جاں پگھلنے دو
پتھروں کی چوٹوں سے آئنو نہ گھبراؤ
حادثوں کے آنگن میں زندگی کو پلنے دو
غم کی دھوپ میں جل کر رہ گئی ہر اک چھاؤں
ہم کو اپنی چاہت کے سائے سائے چلنے دو
غزل
دل کے زخم جلتے ہیں دل کے زخم جلنے دو
جاذب قریشی