EN हिंदी
دل کے زخم جلتے ہیں دل کے زخم جلنے دو | شیح شیری
dil ke zaKHm jalte hain dil ke zaKHm jalne do

غزل

دل کے زخم جلتے ہیں دل کے زخم جلنے دو

جاذب قریشی

;

دل کے زخم جلتے ہیں دل کے زخم جلنے دو
ہم کو ٹھوکریں کھا کر آپ ہی سنبھلنے دو

روشنی فصیلوں کو توڑ کر بھی آئے گی
رات کی سیاہی کو کروٹیں بدلنے دو

سائباں کی خواہش میں اک سفر ہوں صحرا کا
جسم و جاں پگھلتے ہیں جسم و جاں پگھلنے دو

پتھروں کی چوٹوں سے آئنو نہ گھبراؤ
حادثوں کے آنگن میں زندگی کو پلنے دو

غم کی دھوپ میں جل کر رہ گئی ہر اک چھاؤں
ہم کو اپنی چاہت کے سائے سائے چلنے دو