دل کے ویرانے کو یوں آباد کر لیتے ہیں ہم
کر بھی کیا سکتے ہیں تجھ کو یاد کر لیتے ہیں ہم
جب بزرگوں کی دعائیں ہو گئیں بیکار سب
قرض خواب آور سے دل کو شاد کر لیتے ہیں ہم
تلخی کام و دہن کی آبیاری کے لیے
دعوت شیراز ابر و باد کر لیتے ہیں ہم
دیکھ کر دھبے لہو کے دست آدم زاد پر
طاری اپنے ذہن پر الحاد کر لیتے ہیں ہم
کون سنتا ہے بھکاری کی صدائیں اس لیے
کچھ ظریفانہ لطیفے یاد کر لیتے ہیں ہم
جب پرانا لہجہ کھو دیتا ہے اپنی تازگی
اک نئی طرز نوا ایجاد کر لیتے ہیں ہم
دیکھ کر اہل قلم کو کشتۂ آسودگی
خود کو وامقؔ فرض اک نقاد کر لیتے ہیں ہم
غزل
دل کے ویرانے کو یوں آباد کر لیتے ہیں ہم
وامق جونپوری