دل کے ویرانے کو محفل کی طرف لے چلئے
کیوں سمندر کو نہ ساحل کی طرف لے چلئے
آشنا راز حقیقت سے تبھی ہوں گے ہم
ہر حقیقت کو جو باطل کی طرف لے چلئے
اس کی تلوار کی تعریف سنوں میں کب تک
پہلے مجھ کو مرے قاتل کی طرف لے چلئے
موت منزل ہے مسیحا کی تو پھر کیا کہنا
زندگی کو اسی محفل کی طرف لے چلئے
کعبہ و دیر کے گمراہوں کا انجام ہی کیا
یہی بہتر ہے انہیں دل کی طرف لے چلئے
لوگ مشکل کو جب آسانی کی جانب لے جائیں
آپ آسانی کو مشکل کی طرف لے چلئے
سیر مہتاب بہت خوب سہی پھر بھی نیازؔ
دل کو مہتاب شمائل کی طرف لے چلئے
غزل
دل کے ویرانے کو محفل کی طرف لے چلئے
نیاز حیدر