دل کے سکوں کے واسطے بھٹکے کہاں کہاں
ٹوٹے ہزار مرتبہ بکھرے کہاں کہاں
آخر تو بہہ گیا مری آنکھوں سے زار زار
اشکوں کا آبشار ہے سمٹے کہاں کہاں
جب حادثے ہی حادثے اپنا نصیب ہیں
کس کس پہ روئے آنکھ یہ برسے کہاں کہاں
خوشبو ہماری پا کے وہ لوٹ آئے گا کبھی
برسوں اسی امید میں مہکے کہاں کہاں
آپ آرزو کی شکل میں کتنے قریب ہیں
ہم جستجو میں آپ کی بھٹکے کہاں کہاں
قسمت ہے ساتھ اگر تو دعا بھی ہے پر اثر
ورنہ کیے ہیں ہم نے بھی سجدے کہاں کہاں

غزل
دل کے سکوں کے واسطے بھٹکے کہاں کہاں
مصور فیروزپوری