دل کے موسم کو کسی طور سہانا کر دے
زندگی کرنے کا کوئی تو بہانا کر دے
ہم کو یہ شہر ہوس کاٹ رہا ہے کب سے
ہم فقیروں کا کہیں اور ٹھکانا کر دے
مانگنے چل تو دئے اس سے دل اپنا واپس
وہ مگر پھر نہ کوئی تازہ بہانا کر دے
عہد نو راس کب آیا ہمیں بھی یا رب
اس نئے وقت کو پہلے سا پرانا کر دے
جو فسانوں کو حقیقت میں بدل دیتا ہے
یہ بھی ممکن ہے حقیقت کو فسانہ کر دے
فکر کو میری وہ تاثیر عطا کر یا رب
میرے شعروں کو جو مقبول زمانہ کر دے
زندگی اپنی تو گزری ہے حوادث میں نگارؔ
میرے بچوں کے مقدر کو سہانا کر دے
غزل
دل کے موسم کو کسی طور سہانا کر دے
نگار عظیم