EN हिंदी
دل کے ہر جزو میں جدائی ہے | شیح شیری
dil ke har juzw mein judai hai

غزل

دل کے ہر جزو میں جدائی ہے

غلام مولیٰ قلق

;

دل کے ہر جزو میں جدائی ہے
کیا بلا وصل کی سمائی ہے

نارسائی سر رسائی ہے
ضعف کی طاقت آزمائی ہے

جام و مینا پہ نور برسے ہے
کیا گھٹا مے کدے پہ چھائی ہے

یوں تو وہ عالم آشنا ہے مگر
اک مجھی سے ذرا لڑائی ہے

تو ملا غیر سے کہ خاک میں ہم
عاقبت ہر طرح صفائی ہے

تم جدا غیر سے ہوئے تھے کب
واجبی طعن بے وفائی ہے

اے قلقؔ ہم سے تو ملا کر یار
خالص الفت میں کیا برائی ہے