دل کے گھٹنے کو اشارا سمجھو
دہر یہ اپنا خسارا سمجھو
یہ بھی ممکن ہے کہ تم دور کے لوگ
اس الاؤ کو ستارہ سمجھو
یہ بھی اک موج ہے مٹی کی سہی
وقت کم ہے تو کنارا سمجھو
پر نہیں ہوتے خیالوں کے تو پھر
کیسے اڑتے ہیں غبارا سمجھو
کسے معلوم خزانہ مل جائے
کوئی نقشہ تو دوبارہ سمجھو
کھیت رل جائیں گے پاگل پن میں
جنگ کیسی مجھے ہارا سمجھو
غزل
دل کے گھٹنے کو اشارا سمجھو
ادریس بابر