دل کے دروازے پہ دستک کی صدا کوئی نہیں
کون سی منزل ہے یہ آواز پا کوئی نہیں
مجلس آلام سے کس طرح نکلے زندگی
یہ وہ زنداں ہے کہ جس کا راستہ کوئی نہیں
کربلا تو آج بھی ملتا ہے ہر ہر گام پر
شہر میں لیکن حسین با وفا کوئی نہیں
کچھ سمجھ کر ہی کیا ہے میں نے اس کا انتخاب
کیا ہوا اس راہ میں گر نقش پا کوئی نہیں
میں جو اٹھا تو اٹھا سارا زمانہ میرے ساتھ
تم جو اٹھے تو اٹھا دل کے سوا کوئی نہیں
اے شب فرقت کہاں بھٹکے گی چل میرے ہی گھر
یہ وہ بستی ہے جہاں روشن دیا کوئی نہیں
آتش احساس میں جلتے رہو شبلیؔ سدا
شاعری سے بڑھ کے دنیا میں سزا کوئی نہیں
غزل
دل کے دروازے پہ دستک کی صدا کوئی نہیں
علقمہ شبلی