دل کے بجھتے ہوئے زخموں کو ہوا دیتا ہے
روز آتا ہے نیا خواب دکھا دیتا ہے
اس کا انداز مسیحائی نرالا سب سے
چارہ گر ہوش میں آنے پہ دوا دیتا ہے
ہر قدم خاک میں کچھ خواب ملاتے رہنا
ہجر کی رات یہی شغل مزا دیتا ہے
مرنے جینے کا کہاں ہوش ترے رندوں کو
پائے وحشت بھی عجب نقش بنا دیتا ہے
دستکیں دیتا ہے پیہم در دل پر کوئی
ایک سایہ مجھے نیندوں سے جگا دیتا ہے
پھول سا لہجہ ہوا کرتا تھا جس کا ذاکرؔ
اب وہ باتوں میں کوئی بات بنا دیتا ہے
غزل
دل کے بجھتے ہوئے زخموں کو ہوا دیتا ہے
ذاکر خان ذاکر