دل کے بھولے ہوئے افسانے بہت یاد آئے
زندگی تیرے صنم خانے بہت یاد آئے
کوزۂ دل کی طرح پہلے انہیں توڑ دیا
اب وہ ٹوٹے ہوئے پیمانے بہت یاد آئے
وہ جو غیروں کی صلیبوں کو اٹھا لائے تھے
خود مسیحا کو وہ دیوانے بہت یاد آئے
جسم و جاں کے یہ صنم زاد الٰہی توبہ
دل کے اجڑے ہوئے بت خانے بہت یاد آئے
موت کا رقص ہے افسردگیٔ جاں کا علاج
جل بجھی شمع تو پروانے بہت یاد آئے
دل کے زخموں کے بھلا کس کو میسر ہیں چراغ
اشک در اشک وہ نذرانے بہت یاد آئے
دیکھ کر شہر خرد کی یہ کشاکش تنویرؔ
دشت احساس کے ویرانے بہت یاد آئے
غزل
دل کے بھولے ہوئے افسانے بہت یاد آئے
تنویر احمد علوی