EN हिंदी
دل کے اندر درد آنکھوں میں نمی بن جائیے | شیح شیری
dil ke andar dard aankhon mein nami ban jaiye

غزل

دل کے اندر درد آنکھوں میں نمی بن جائیے

سلیم احمد

;

دل کے اندر درد آنکھوں میں نمی بن جائیے
اس طرح ملیے کہ جزو زندگی بن جائیے

اک پتنگے نے یہ اپنے رقص آخر میں کہا
روشنی کے ساتھ رہیے روشنی بن جائیے

جس طرح دریا بجھا سکتے نہیں صحرا کی پیاس
اپنے اندر ایک ایسی تشنگی بن جائیے

دیوتا بننے کی حسرت میں معلق ہو گئے
اب ذرا نیچے اتریے آدمی بن جائیے

عقل کل بن کر تو دنیا کی حقیقت دیکھ لی
دل یہ کہتا ہے کہ اب دیوانگی بن جائیے

جس طرح خالی انگوٹھی کو نگینہ چاہئے
عالم امکاں میں اک ایسی کمی بن جائیے

عالم کثرت نہیں ہے اس اکائی میں سلیمؔ
خود میں خود کو جمع کیجے اور کئی بن جائیے