EN हिंदी
دل کا سرمایہ لئے تو بھی کوئی بازار دیکھ | شیح شیری
dil ka sarmaya liye tu bhi koi bazar dekh

غزل

دل کا سرمایہ لئے تو بھی کوئی بازار دیکھ

ماہر عبدالحی

;

دل کا سرمایہ لئے تو بھی کوئی بازار دیکھ
تیرے دشمن کا چمک اٹھا ہے کاروبار دیکھ

جس پہ چلنے کا صلہ ہے منزل امن و سکوں
کھینچ دی ہے وقت نے اس راہ میں دیوار دیکھ

روح تازہ کون پھونکے گا تن بے روح میں
لشکر درماندگاں ہے بے سپہ سالار دیکھ

ہجرتوں کے سلسلے باقی ہیں دنیا میں ابھی
لیکن اب ڈھونڈے سے بھی ملتے نہیں انصار دیکھ

جان دے کر جان لی تو نے بھلا یہ کیا کیا
تیری قربانی ہوئی میرے گلے کا ہار دیکھ

جس کی خوشبو سے معطر ہے مشام زندگی
بے وقار وزن پھرتا ہے وہ نافہ دار دیکھ

اے سراپا شمع بزم ماہ و انجم سے نکل
کن اندھیروں کو ہے تیری روشنی درکار دیکھ

دامن دل بھر کے لے جاتے ہیں ارباب نظر
بے نوا درویش کا دربار ہے دربار دیکھ

کس کے روکے سے رکی ہے گردش لیل و نہار
ظلمت شب کے پجاری صبح کے آثار دیکھ

کب تلک گائے گا ماہرؔ عظمت ماضی کے گیت
عصر نو کی روز افزوں گرمئ بازار دیکھ