دل کا سارا گھور اندھیرا دور ہوا
کس کا ہے یہ نور جو میں پر نور ہوا
زخم رسا پھر زخم دل ناسور ہوا
رفتہ رفتہ جیسے بھاگلپور ہوا
یوں تو ہم نے قصے لکھے رنگا رنگ
لیکن غم کا قصہ ہی مشہور ہوا
پانی پانی چیخ رہا تھا پیاسا دل
شہر ستم کا کیسا یہ دستور ہوا
کیسا ملک شور بپا ہے خیمے میں
آنکھیں سونی دل کا شیشہ چور ہوا
اب کے موسم صدیوں کا تہذیبی رنگ
ختم ہوا برباد ہوا کافور ہوا
شہر میں تیرے کس سے گلا پھر کرتے ہم
اخترؔ جب اپنا ہی سایہ دور ہوا
غزل
دل کا سارا گھور اندھیرا دور ہوا
کلیم اختر