EN हिंदी
دل کا ہر ایک زخم گہرا ہے | شیح شیری
dil ka har ek zaKHm gahra hai

غزل

دل کا ہر ایک زخم گہرا ہے

کرامت علی کرامت

;

دل کا ہر ایک زخم گہرا ہے
اس سے ہر وقت خون رستا ہے

دم لیا ہم نے غم کے سائے میں
ورنہ ہر سمت خشک صحرا ہے

اس کو کس طرح میں بھلا دیتا
جس کا ہر دم خیال آتا ہے

بجھ گیا جب سے اپنے دل کا چراغ
چاندنی کا بھی رنگ پھیکا ہے

اک سہارا ملا ہے غم کا ہمیں
ورنہ دنیا میں کون کس کا ہے

یوں تو کونین میرے سامنے ہیں
کون میری نظر میں تجھ سا ہے

یہ بتائے کوئی کرامتؔ سے
مختلف سب سے اس کا لہجہ ہے