دل کا ہر ایک زخم گہرا ہے
اس سے ہر وقت خون رستا ہے
دم لیا ہم نے غم کے سائے میں
ورنہ ہر سمت خشک صحرا ہے
اس کو کس طرح میں بھلا دیتا
جس کا ہر دم خیال آتا ہے
بجھ گیا جب سے اپنے دل کا چراغ
چاندنی کا بھی رنگ پھیکا ہے
اک سہارا ملا ہے غم کا ہمیں
ورنہ دنیا میں کون کس کا ہے
یوں تو کونین میرے سامنے ہیں
کون میری نظر میں تجھ سا ہے
یہ بتائے کوئی کرامتؔ سے
مختلف سب سے اس کا لہجہ ہے
غزل
دل کا ہر ایک زخم گہرا ہے
کرامت علی کرامت