EN हिंदी
دل کا برا نہیں مگر شخص عجیب ڈھب کا ہے | شیح شیری
dil ka bura nahin magar shaKHs ajib Dhab ka hai

غزل

دل کا برا نہیں مگر شخص عجیب ڈھب کا ہے

شہزاد احمد

;

دل کا برا نہیں مگر شخص عجیب ڈھب کا ہے
مجھ سے ہے خاص دشمنی ویسے تو یار سب کا ہے

دوریوں نے مٹا دیے جو بھی تھے قربتوں کے رنج
اب مری بات بات میں رنگ تری طلب کا ہے

میرے لہو میں تھی رواں جب ترے سانس کی مہک
جانے یہ کب کی بات ہے جانے یہ ذکر کب کا ہے

ایک ذرا سی بات پر بدلی تھی جب تری نظر
تجھ کو خبر نہیں مگر دل تو اداس تب کا ہے

کیوں نہ دل خزاں نصیب ہر گل تر کو چوم لے
آج تو پھول پھول میں ذائقہ اس کے لب کا ہے

کیف و نشاط و سر خوشی نعمتیں سب اسی کی ہیں
مجھ کو عطا کیا ہوا درد بھی میرے رب کا ہے

شوکت و شان ایزدی دل نے کہاں سے سیکھ لی
سب سے ہے بے نیاز بھی دھیان بھی اس کو سب کا ہے

راہ دکھائی تک نہ دی تیرہ شبی بلا کی تھی
آنکھ نہ کھل سکی مری نور بھی اس غضب کا ہے

حشر کا دن بھی ہو تو کیا یہ بھی نصیب ہے مرا
دن ہے گزر ہی جائے گا خوف تو مجھ کو شب کا ہے