دل جس کا درد عشق کا حامل نہیں رہا
وہ شخص تیرے پیار کے قابل نہیں رہا
جب بھی حنائی ہاتھوں سے گیسو سنور گئے
آئینۂ بہار مقابل نہیں رہا
ہر آستاں سے لوٹ کے آنا پڑا اسے
جو تیرے در پہ آنے کے قابل نہیں رہا
محرومیاں ہی جس کا مقدر ہیں دوستو
وہ محفل نشاط کے قابل نہیں رہا
جب تم نہ تھے تو کچھ بھی نہیں تھا بہار میں
تم آ گئے تو کوئی مقابل نہیں رہا
دیوانے تیرے ڈوب گئے گہری نیند میں
زنداں میں شور طوق و سلاسل نہیں رہا
جب آپ مسکرائے غم دل کی بات پر
دل درد کو چھپانے کے قابل نہیں رہا
تنہائیوں کی بزم ہی اچھی رہی خیالؔ
محفل میں پر سکون کبھی دل نہیں رہا

غزل
دل جس کا درد عشق کا حامل نہیں رہا
فیض الحسن