دل جہاں بھی ڈوبا ہے ان کی یاد آئی ہے
ہائے کیا سکوں پرور درد آشنائی ہے
تم سراب بن بن کر اپنی چھب دکھاتے ہو
تشنہ لب مسافر کی جان پر بن آئی ہے
یہ کشاکش ہستی کتنی دور لے آئی
دن کہاں گزارا ہے شب کہاں گنوائی ہے
زندگی تری خاطر تیرے درد مندوں نے
اک جہان کی تہمت اپنے سر اٹھائی ہے
روز و شب مری خاطر جس کا دل دھڑکتا تھا
اب یہ حال ہے اس کی یاد بھی پرائی ہے
میں صدائے گم گشتہ میں ادائے نا زیبا
میرا نام کتنوں کو وجہ خود نمائی ہے
خواب ہو چکے شاہیںؔ سارے واقعے پھر بھی
شہر شہر میں اب تک داستاں سرائی ہے
غزل
دل جہاں بھی ڈوبا ہے ان کی یاد آئی ہے
شاہین غازی پوری