EN हिंदी
دل جب سے درد عشق کے قابل نہیں رہا | شیح شیری
dil jab se dard-e-ishq ke qabil nahin raha

غزل

دل جب سے درد عشق کے قابل نہیں رہا

صفی اورنگ آبادی

;

دل جب سے درد عشق کے قابل نہیں رہا
اک ناگوار چیز ہے اب دل نہیں رہا

وہ میں نہیں رہا وہ مرا دل نہیں رہا
اب ان کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا

کیا التجائے دید کروں دیکھتا ہوں میں
آئینہ بھی ہمیشہ مقابل نہیں رہا

اب وہ خفا ہوئے ہیں تو یوں بھی ہے اک خوشی
مرنا ہمارے واسطے مشکل نہیں رہا

دنیا غرض کی رہ گئی اب اس سے کیا غرض
چلئے کہ لطف شرکت محفل نہیں رہا

سن سن کے اہل عشق و محبت کے واقعات
دنیا کا کوئی کام بھی مشکل نہیں رہا

دنیا کے نیک و بد پہ مری رائے کچھ نہیں
اب تک ادھر خیال ہی مائل نہیں رہا

مجھ سے نہ پوچھو حسرت آرائش جمال
آئینہ بن کے ان کے مقابل نہیں رہا

اک ناامید کے لئے اتنا نہ سوچئے
آزردہ دل رہا بھی تو بے دل نہیں رہا

وہ جان لے چکیں تو کوئی ان سے پوچھ لے
اب تو کچھ اس غریب پہ فاضل نہیں رہا

آیا نہ خواب میں بھی کبھی غیر کا خیال
غفلت میں بھی میں آپ سے غافل نہیں رہا

بے بندگی بھی اس کی رہی بندہ پروری
ملتا رہا اگرچہ میں سائل نہیں رہا

وہ ہاتھ ہیں صفیؔ مجھے اک آستیں کا سانپ
گردن میں دوست کے جو حمائل نہیں رہا