دل اضطراب میں ہے جگر التہاب میں
دیکھا ہے جب سے میں نے کسی کو نقاب میں
کھل جانے میں وہ کیف اور وہ دل کشی کہاں
ہے جب کسی کی شرم و حیا و حجاب میں
میں کھینچتا ہوں ہاتھ سکوں کی تلاش سے
جب دیکھتا ہوں ایک جہاں کو عذاب میں
اے شیخ کاش تو بھی کبھی پی کے دیکھتا
ہے تلخیٔ حیات کا درماں شراب میں
یہ شوخیاں یہ غفلتیں یہ ہوشیاریاں
انداز سو طرح کے ہیں تیرے شباب میں
کیا آج بھی رہیں گی ستاروں سے چشم گیں
کیا آج بھی نہ آئیں گے وہ ماہتاب میں
اک اک ادائے حسن ہماری نظر میں ہے
الفت کی چاشنی ہے نگاہ عتاب میں
صائبؔ نہ پوچھ حال دل غم زدہ نہ پوچھ
ہر سانس میری ان دنوں ہے اضطراب میں
غزل
دل اضطراب میں ہے جگر التہاب میں
صائب عاصمی