دل عشق میں بے پایاں سودا ہو تو ایسا ہو
دریا ہو تو ایسا ہو صحرا ہو تو ایسا ہو
اک خال سویدا میں پہنائی دو عالم
پھیلا ہو تو ایسا ہو سمٹا ہو تو ایسا ہو
اے قیس جنوں پیشہ انشاؔ کو کبھی دیکھا
وحشی ہو تو ایسا ہو رسوا ہو تو ایسا ہو
دریا بہ حباب اندر طوفاں بہ سحاب اندر
محشر بہ حجاب اندر ہونا ہو تو ایسا ہو
ہم سے نہیں رشتہ بھی ہم سے نہیں ملتا بھی
ہے پاس وہ بیٹھا بھی دھوکا ہو تو ایسا ہو
وہ بھی رہا بیگانہ ہم نے بھی نہ پہچانا
ہاں اے دل دیوانہ اپنا ہو تو ایسا ہو
اس درد میں کیا کیا ہے رسوائی بھی لذت بھی
کانٹا ہو تو ایسا ہو چبھتا ہو تو ایسا ہو
ہم نے یہی مانگا تھا اس نے یہی بخشا ہے
بندہ ہو تو ایسا ہو داتا ہو تو ایسا ہو
غزل
دل عشق میں بے پایاں سودا ہو تو ایسا ہو
ابن انشا