دل عشق کی مے سے چھلک رہا ہے
اک پھول ہے جو مہک رہا ہے
آنکھیں کب کی برس چکی ہیں
کوندا اب تک لپک رہا ہے
اب آئے بہار یا نہ آئے
آنکھوں سے لہو ٹپک رہا ہے
ہے دور بہت زمان وعدہ
اور دل ابھی سے دھڑک رہا ہے
کس نے وحشی اثرؔ کو چھیڑا
دیوار سے سر پٹک رہا ہے
غزل
دل عشق کی مے سے چھلک رہا ہے
اثر لکھنوی