دل حسن کو دان دے رہا ہوں
گاہک کو دکان دے رہا ہوں
شاید کوئی بندۂ خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
ہر کہنہ یقیں کو از سر نو
اک تازہ گمان دے رہا ہوں
گونگی ہے ازل سے جو حقیقت
میں اس کو زبان دے رہا ہوں
میں غم کو بسا رہا ہوں دل میں
بے گھر کو مکان دے رہا ہوں
بے جادہ و راہ ہے جو منزل
میں اس کا نشان دے رہا ہوں
جو فصل ابھی کٹی نہیں ہے
میں اس کا لگان دے رہا ہوں
حاصل کا حساب ہو رہے گا
فی الحال تو جان دے رہا ہوں
رکھوں جو لحاظ مصلحت کا
کیا کوئی بیان دے رہا ہوں
غزل
دل حسن کو دان دے رہا ہوں
سلیم احمد