دل ہو خراب دین پہ جو کچھ اثر پڑے
اب کار عاشقی تو بہر کیف کر پڑے
عشق بتاں کا دین پہ جو کچھ اثر پڑے
اب تو نباہنا ہے جب اک کام کر پڑے
مذہب چھڑایا عشوۂ دنیا نے شیخ سے
دیکھی جو ریل اونٹ سے آخر اتر پڑے
بیتابیاں نصیب نہ تھیں ورنہ ہم نشیں
یہ کیا ضرور تھا کہ انہیں پر نظر پڑے
بہتر یہی ہے قصد ادھر کا کریں نہ وہ
ایسا نہ ہو کہ راہ میں دشمن کا گھر پڑے
ہم چاہتے ہیں میل وجود و عدم میں ہو
ممکن تو ہے جو بیچ میں ان کی کمر پڑے
دانا وہی ہے دل جو کرے آپ کا خیال
بینا وہی نظر ہے کہ جو آپ پر پڑے
ہونی نہ چاہئے تھی محبت مگر ہوئی
پڑنا نہ چاہئے تھا غضب میں مگر پڑے
شیطان کی نہ مان جو راحت نصیب ہو
اللہ کو پکار مصیبت اگر پڑے
اے شیخ ان بتوں کی یہ چالاکیاں تو دیکھ
نکلے اگر حرم سے تو اکبرؔ کے گھر پڑے
غزل
دل ہو خراب دین پہ جو کچھ اثر پڑے
اکبر الہ آبادی