دل ہی دل میں گھٹ کے رہ جاؤں یہ میری خو نہیں
آج اے آشوب دوراں میں نہیں یا تو نہیں
سنگ کی صورت پڑا ہوں وقت کی دہلیز پر
ٹھوکروں میں زندگی ہے آنکھ میں آنسو نہیں
شب غنیمت تھی کہ روشن تھے امیدوں کے خطوط
دن کے صحرا میں کوئی تارا کوئی جگنو نہیں
چار جانب یہ سجے چہرے ہیں یا کاغذ کے پھول
رنگ کے جلوے تو ہیں لیکن کہیں خوشبو نہیں
تیری رحمت کا نہیں ہر چند میں منکر مگر
سر پہ جو چڑھ کر نہ بولے وہ کوئی جادو نہیں
مصلحت ہے جن کا مسلک وہ مرے بھائی کہاں
جو نہ اٹھیں میرے دشمن پر مرے بازو نہیں

غزل
دل ہی دل میں گھٹ کے رہ جاؤں یہ میری خو نہیں
خاور رضوی