دل ہماری طرف سے صاف کرو
جو ہوا وہ ہوا معاف کرو
اہل گلشن بہار آ پہنچی
خار و خس سے چمن کو صاف کرو
جب ستم ہوگا پھر کرم کے بعد
تو کرم سے مجھے معاف کرو
مجھ سے کہتی ہے اس کی شان کرم
تم گناہوں کا اعتراف کرو
یہ بھی عادت میں کوئی عادت ہے
جو کہو اس کے بر خلاف کرو
کیوں بجھاؤ پہیلیاں بے کار
گفتگو مجھ سے صاف صاف کرو
ایک دو تین چار پانچ نہیں
سب خطائیں مری معاف کرو
حسن ان کو یہ رائے دیتا ہے
کام امید کے خلاف کرو
حضرت دل یہی ہے دیر و حرم
محفل یار کا طواف کرو
تم سزا دو مگر بحسب قصور
میں یہ کہتا نہیں معاف کرو
اس میں بھی شان پائی جاتی ہے
ہو کوئی بات انحراف کرو
سخت جانوں کا قتل کھیل نہیں
کچھ دنوں اور ہاتھ صاف کرو
تم کو قہر کرم نما کی قسم
فیصلہ میرے بر خلاف کرو
کھلتے ہیں دل کے اتنے ہی جوہر
جتنا اس آئنے کو صاف کرو
دل میں ہیں خار آرزو لاکھوں
آؤ کانٹوں سے گھر کو صاف کرو
طور سینا کی سمت جائیں کلیم
نوحؔ تم سیر کوہ قاف کرو
غزل
دل ہماری طرف سے صاف کرو
نوح ناروی