دل ہے نہ نشان بے دلی کا
کیا وقت پڑا ہے بے کسی کا
دیکھا کئے راستہ کسی کا
تھا شغل یہ اپنی زندگی کا
پروائے کرم نہ شکوۂ غم
اللہ رے دماغ بے دلی کا
میں اور یہ بے نیازئ شوق
احسان ہے جوش بے خودی کا
مرنا مرنے کی آرزو میں
حاصل ہے یہ اپنی زندگی کا
آنسو بھر آئے دل بھر آیا
گر نام بھی سن لیا خوشی کا
آخر عبرتؔ نے جان دے دی
کچھ پاس کیا نہ بے کسی کا
غزل
دل ہے نہ نشان بے دلی کا
اکبر حسین موہانی عبرت