EN हिंदी
دل ہے کہ محبت میں اپنا نہ پرایا ہے | شیح شیری
dil hai ki mohabbat mein apna na paraya hai

غزل

دل ہے کہ محبت میں اپنا نہ پرایا ہے

نشور واحدی

;

دل ہے کہ محبت میں اپنا نہ پرایا ہے
کچھ سوچ کے اس نے بھی دیوانہ بنایا ہے

جو وقت کہ گزرا ہے جذبات کے کوچے میں
کچھ راس نہیں آیا کچھ راس بھی آیا ہے

آساں نہیں یہ آنسو آیا ہے جو پلکوں پر
رگ رگ سے لہو لے کر دیپک یہ جلایا ہے

اک ربط حسیں دیکھا بے ربطیٔ عالم میں
ہنگامہ سہی لیکن ہنگامہ سجایا ہے

پہچان لیے ہم نے تیور غم دوراں کے
دنیا میں رہا لیکن دھوکا نہیں کھایا ہے

رہبر ہو کہ شاعر ہو کیا اپنی خبر اس کو
خود کچھ بھی نہیں سیکھا دنیا کو سکھایا ہے

نغمہ ہے نشورؔ اپنا افسردۂ غم لیکن
احساس کی محفل میں کچھ رنگ تو آیا ہے