دل گرفتہ ہوں جہاں شاد ہوں میں
ایک مجموعۂ اضداد ہوں میں
تیرا میرا ہے گماں کا رشتہ
تو ہے میری تری ایجاد ہوں میں
تجھ کو یہ غم کہ گرفتار ہے تو
مجھ کو یہ رنج کے آزاد ہوں میں
کوئی رستہ ہے نہ کوئی منزل
گرد ہوں اور سر باد ہوں میں
تن تنہا کا ہوں اپنے ناصر
خود کو پہنچی ہوئی امداد ہوں میں
صرف میں اپنی کہانی ہی نہیں
سن مجھے تیری بھی روداد ہوں میں
میری تعمیر کا مجھ پر ہے کھڑا
بہت کھودی ہوئی بنیاد ہوں میں
غزل
دل گرفتہ ہوں جہاں شاد ہوں میں
آصف رضا