EN हिंदी
دل گیا تم نے لیا ہم کیا کریں | شیح شیری
dil gaya tumne liya hum kya karen

غزل

دل گیا تم نے لیا ہم کیا کریں

داغؔ دہلوی

;

دل گیا تم نے لیا ہم کیا کریں
جانے والی چیز کا غم کیا کریں

ہم نے مر کر ہجر میں پائی شفا
ایسے اچھوں کا وہ ماتم کیا کریں

اپنے ہی غم سے نہیں ملتی نجات
اس بنا پر فکر عالم کیا کریں

ایک ساغر پر ہے اپنی زندگی
رفتہ رفتہ اس سے بھی کم کیا کریں

کر چکے سب اپنی اپنی حکمتیں
دم نکلتا ہو تو ہمدم کیا کریں

دل نے سیکھا شیوۂ بیگانگی
ایسے نامحرم کو محرم کیا کریں

معرکہ ہے آج حسن و عشق کا
دیکھیے وہ کیا کریں ہم کیا کریں

آئینہ ہے اور وہ ہیں دیکھیے
فیصلہ دونوں یہ باہم کیا کریں

آدمی ہونا بہت دشوار ہے
پھر فرشتے حرص آدم کیا کریں

تند خو ہے کب سنے وہ دل کی بات
اور بھی برہم کو برہم کیا کریں

حیدرآباد اور لنگر یاد ہے
اب کے دلی میں محرم کیا کریں

کہتے ہیں اہل سفارش مجھ سے داغؔ
تیری قسمت ہے بری ہم کیا کریں