EN हिंदी
دل گیا دل سے دل کی بات گئی | شیح شیری
dil gaya dil se dil ki baat gai

غزل

دل گیا دل سے دل کی بات گئی

شوق بجنوری

;

دل گیا دل سے دل کی بات گئی
وہ گئے لذت حیات گئی

غنچے افسردہ پھول پژمردہ
فصل گل جیسے ان کے سات گئی

ان کے جلوے نگاہ میں نہ رہے
رونق بزم کائنات گئی

دل ناداں کو لاکھ سمجھایا
کچھ نہ سمجھا یہ ساری رات گئی

سایۂ زلف میں جو گزری تھی
کون جانے کدھر وہ رات گئی

اٹھ گیا پردۂ اجل جس دم
اک حیات آئی اک حیات گئی

شوقؔ بزم جہاں کی رونق ہے
یہ گیا روح کائنات گئی