دل گیا دل سے دل کی بات گئی
وہ گئے لذت حیات گئی
غنچے افسردہ پھول پژمردہ
فصل گل جیسے ان کے سات گئی
ان کے جلوے نگاہ میں نہ رہے
رونق بزم کائنات گئی
دل ناداں کو لاکھ سمجھایا
کچھ نہ سمجھا یہ ساری رات گئی
سایۂ زلف میں جو گزری تھی
کون جانے کدھر وہ رات گئی
اٹھ گیا پردۂ اجل جس دم
اک حیات آئی اک حیات گئی
شوقؔ بزم جہاں کی رونق ہے
یہ گیا روح کائنات گئی
غزل
دل گیا دل سے دل کی بات گئی
شوق بجنوری