دل گیا دل لگی نہیں جاتی
روتے روتے ہنسی نہیں جاتی
آنکھیں ساقی کی جب سے دیکھی ہیں
ہم سے دو گھونٹ پی نہیں جاتی
کبھی ہم بھی تڑپ میں بجلی تھے
اب تو کروٹ بھی لی نہیں جاتی
ان کو سینے سے بھی لگا دیکھا
ہائے دل کی لگی نہیں جاتی
بات کرتے وہ قتل کرتا ہے
بات بھی جس سے کی نہیں جاتی
آپ میں آئے بھی تو کیا آئے
لذت بے خودی نہیں جاتی
ہیں وہی مجھ سے کاوشیں دل کی
دوست کی دشمنی نہیں جاتی
ہو گئے پھول زخم دل کھل کر
نہیں جاتی ہنسی نہیں جاتی
غزل
دل گیا دل لگی نہیں جاتی
جلیلؔ مانک پوری