دل ناداں پہ شکایت کا گماں کیا ہوگا
چند اشکوں سے جفاؤں کا بیاں کیا ہوگا
شب کے بھٹکے ہوئے راہی کو خبر دے کوئی
صبح رنگیں کی بہاروں کا نشاں کیا ہوگا
نالۂ مرغ گرفتار سے بے زاری کیا
گوش صیاد پہ اب یہ بھی گراں کیا ہوگا
سچ کے کہنے سے اگر جی کا زیاں ہوتا ہے
سچ بہرحال ہے سچ مہر دہاں کیا ہوگا
چپ رہیں ہم تو سر دار پکارے گا لہو
چند ہی روز میں آئین جہاں کیا ہوگا
ذرہ ذرہ پہ کوئی پھونکے گا افسون بہار
مانع جوش نمو جور خزاں کیا ہوگا
چشم نرگس کو ہوس ہے کہ چمن میں دیکھے
آتش گل کے بھڑکنے کا سماں کیا ہوگا
اب تو ہم شہر نگاراں سے چلے آئے ہیں
باعث وحشت دل حسن بتاں کیا ہوگا

غزل
دل ناداں پہ شکایت کا گماں کیا ہوگا
حنیف فوق