''دل مضطر کو سمجھایا بہت ہے''
ہوا تنہا تو گھبرایا بہت ہے
مبارک ہو تجھے یہ قصر رنگیں
مجھے دیوار کا سایہ بہت ہے
مرے دل کا یہ عالم بھی عجب ہے
کہ جس پر آ گیا آیا بہت ہے
ترے اس پھول سے چہرے نے اب کے
مرے زخموں کو مہکایا بہت ہے
ترے وعدوں میں شاید کچھ کمی ہے
افق پر چاند گہنایا بہت ہے
یہ دولت لے کے انورؔ کیا کروں گا
تری یادوں کا سرمایہ بہت ہے

غزل
''دل مضطر کو سمجھایا بہت ہے'' (ردیف .. ے)
انور شادانی