دل محلہ غلام ہو جائے
کوئی اس کا امام ہو جائے
دفتر عشق کاش تم آؤ
میرے جیسوں کا کام ہو جائے
یوں تو رکھا ہے پیاس کا روزہ
آ گئے ہو تو جام ہو جائے
پھر زبان خدا پہ لفظ کن
جشن کا اہتمام ہو جائے
چپ کا گھونگھٹ اٹھا کے ہونٹوں سے
جان جاناں کلام ہو جائے
قیس و فرہاد کی طرح ہاشمؔ
بس محبت میں نام ہو جائے
غزل
دل محلہ غلام ہو جائے
ہاشم رضا جلالپوری