دل خلوص گزیدہ کو کوئی کیا جانے
میں چاہتا ہوں کہ دنیا مجھے نہ پہچانے
سنو نہ میری شکستہ دلی کے افسانے
کہ میرے سامنے توڑے گئے ہیں پیمانے
جو کہہ رہا تھا تو کچھ بھی سنا نہ دنیا نے
جو چپ ہوا ہوں تو بننے لگے ہیں افسانے
وہ غم سمیٹ لیے میں نے زندگی کے لیے
تری نگاہ کرم بھی جنہیں نہ پہچانے
گزر گئے ہیں وہ لمحے بھی عشق میں اے دوست
ترے بغیر بھی جب خوش رہے ہیں دیوانے
یہ چاندنی یہ ستارے کہاں گئے آخر
نظر تو خیر گئی ہے کسی کو پہنچانے
مری ہنسی میں مگر زہر گھل گیا نازشؔ
میں چاہتا تھا مرا غم کوئی نہ پہچانے
غزل
دل خلوص گزیدہ کو کوئی کیا جانے
نازش پرتاپ گڑھی