EN हिंदी
دل ایذا طلب لے تیرا کہنا کر لیا میں نے | شیح شیری
dil-e-iza-talab le tera kahna kar liya maine

غزل

دل ایذا طلب لے تیرا کہنا کر لیا میں نے

فاروق بانسپاری

;

دل ایذا طلب لے تیرا کہنا کر لیا میں نے
کسی کے ہجر میں جینا گوارا کر لیا میں نے

بت پیماں شکن سے انتقاماً ہی سہی لیکن
ستم ہے وعدۂ ترک تمنا کر لیا میں نے

نیاز عشق کو صورت نہ جب کوئی نظر آئی
جنون بندگی میں خود کو سجدا کر لیا میں نے

وفا نا آشنا اس سادگی کی داد دے مجھ کو
سمجھ کر تیری باتوں پر بھروسا کر لیا میں نے

محبت بے بہا شے ہے مگر تقدیر اچھی تھی
متاع دو جہاں دے کر یہ سودا کر لیا میں نے

ملا تو دید کا موقع مگر غیرت کو کیا کہیے
جب آئی وادی ایمن تو پردا کر لیا میں نے

بڑی دولت ہے حق کے نام پر دولت لٹا دینا
جہاں میں پھونک کر چاندنی کو سونا کر لیا میں نے

کسی کے ایک درد بندگی سے کیا ملی فرصت
کہ دل میں سو طرح کا درد پیدا کر لیا میں نے

تماشا دیکھتے ہی دیکھتے ان کی اداؤں کا
سر محفل خود اپنے کو تماشا کر لیا میں نے

کسی کی راہ میں فاروقؔ برباد وفا ہو کر
برا کیا ہے کہ اپنے حق میں اچھا کر لیا میں نے