دل دیوانہ عرض حال پر مائل تو کیا ہوگا
مگر وہ پوچھ بیٹھے خود ہی حال دل تو کیا ہوگا
ہمارا کیا ہمیں تو ڈوبنا ہے ڈوب جائیں گے
مگر طوفان جا پہنچا لب ساحل تو کیا ہوگا
شراب ناب ہی سے ہوش اڑ جاتے ہیں انساں کے
ترا کیف نظر بھی ہو گیا شامل تو کیا ہوگا
خرد کی رہبری نے تو ہمیں یہ دن دکھائے ہیں
جنوں ہو جائے گا جب رہبر منزل تو کیا ہوگا
کوئی پوچھے تو ساحل پر بھروسہ کرنے والوں سے
اگر طوفاں کی زد میں آ گیا ساحل تو کیا ہوگا
خود اس کی زندگی اب اس سے برہم ہوتی جاتی ہے
انہیں ہوگا بھی پاس خاطر قابلؔ تو کیا ہوگا
غزل
دل دیوانہ عرض حال پر مائل تو کیا ہوگا
قابل اجمیری