EN हिंदी
دل بیتاب کو بہلا چکی ہوں | شیح شیری
dil-e-betab ko bahla chuki hun

غزل

دل بیتاب کو بہلا چکی ہوں

عزیز بدایونی

;

دل بیتاب کو بہلا چکی ہوں
ستارے آسماں سے لا چکی ہوں

نگاہ کہکشاں سے پوچھ لینا
شعاع زندگانی پا چکی ہوں

خرد کی تنگ وادی سے نکل کر
جنوں کی منزلت اپنا چکی ہوں

اندھیروں میں چراغاں کرنے والو
اجالوں میں اندھیرا پا چکی ہوں

زمیں کی پستیوں کو کیوں گلہ ہے
جنہیں میں آسماں بتلا چکی ہوں

جہاں پر عقل رک جاتی ہے اکثر
تصور میں وہاں تک جا چکی ہوں

ترے کردار میں مضمر ہے عظمت
تجھے اے زندگی سمجھا چکی ہوں

محبت صرف روحانی کشش ہے
غم ہستی تجھے اپنا چکی ہوں

شعور زیست نا ممکن نہیں ہے
نگاہ موت کو شرما چکی ہوں

عزیزو با وفا فضل خدا سے
مقام بندگی اپنا چکی ہوں