دل بے قرار چلا تو تھا گلۂ حیات لیے ہوئے
غم عشق روح پہ چھا گیا غم کائنات لیے ہوئے
کبھی بے ارادہ چھلک گئی تھی کسی کے ذکر پہ چشم نم
وہ ہیں مجھ سے آج بھی بد گماں وہی ایک بات لیے ہوئے
مرے دل کے ساتھ ہی چھین لے مری خود شناس نگاہ بھی
میں ترے قریب نہ آؤں گا یہ توہمات لیے ہوئے
کبھی تجھ پہ اپنا گمان ہے کبھی خود پہ تیرا گمان ہے
مرے کردگار کہاں رہوں یہ تصورات لیے ہوئے
شب انتظار کے بعد پھر نہ ہوئی طلوع کوئی سحر
مری عمر ساری گزر گئی یہی ایک رات لیے ہوئے
تجھے ناز ضبط بجا سہی مگر اے فریدیٔؔ سادہ دل
کوئی چشم شعلہ مزاج ہے ترے دل کی بات لیے ہوئے
غزل
دل بے قرار چلا تو تھا گلۂ حیات لیے ہوئے
مغیث الدین فریدی