دل بے مدعا کا مدعا کیا
اسے یکساں روا کیا ناروا کیا
جنہیں ہر سانس بھی اک مرحلہ ہے
انہیں راس آئے دنیا کی ہوا کیا
کوئی سنتا نہیں ہے مفلسوں کی
غریبوں کا پیمبر کیا خدا کیا
نگاہ دوست میں جچتا نہیں جب
تو پھر میں کیا مرا ذہن رسا کیا
بڑا اچھا کیا آج آ گئے تم
چلو چھوڑو نہ آئے کل ہوا کیا
جو خود دست طلب پھیلا رہا ہو
سکھی بھی ہو تو اس کا آسرا کیا
اگر مجبور ہے جینے پر انساں
تو پھر کیسے کٹے یہ سوچنا کیا

غزل
دل بے مدعا کا مدعا کیا
دوارکا داس شعلہ