دل افسردہ کیوں کمھلا رہا ہے
ٹھہر جا کوئی شاید آ رہا ہے
ترے پہلو میں یہ ہم کو ملا ہے
ہمارا درد بڑھتا جا رہا ہے
نہ مونس ہے نہ ہمدم ہے نہ ساتھی
دل ناداں کہاں ٹکرا رہا ہے
ہم اب ٹھکرا چکے ہیں دونوں عالم
ہمیں تو کس لئے ٹھکرا رہا ہے
یہاں تاریک ہے سارا زمانہ
مری نظروں سے کیوں کترا رہا ہے
مرے اشکوں سے تاروں میں ہے ہلچل
سہانی شب ہے کوئی جا رہا ہے
خدا جانے وہ آئیں یا نہ آئیں
بہت تسنیمؔ دل گھبرا رہا ہے

غزل
دل افسردہ کیوں کمھلا رہا ہے
جمیلہ خاتون تسنیم