دل ڈوب نہ جائیں پیاسوں کے تکلیف ذرا فرما دینا
اے دوست کسی مے خانے سے کچھ زیست کا پانی لا دینا
طوفان حوادث سے پیارے کیوں اتنا پریشاں ہوتا ہے
آثار اگر اچھے نہ ہوئے اک ساغر مے چھلکا دینا
ظلمات کے جھرمٹ ویسے تو بجلی کی چمک سے ڈرتے ہیں
پر بات اگر کچھ بڑھ جائے تاروں سے سبو ٹکرا دینا
ہم حشر میں آتے تو ان کی تشہیر کا باعث ہو جاتے
تشہیر سے بچنے والوں کو یہ بات ذرا سمجھا دینا
میں پیرہن ہستی میں بہت عریاں سا دکھائی دیتا ہوں
اے موت مری عریانی کو ملبوس عدمؔ پہنا دینا
غزل
دل ڈوب نہ جائیں پیاسوں کے تکلیف ذرا فرما دینا
عبد الحمید عدم