دل دیا وحشت لیا اور خود کو رسوا کر لیا
مختصر سی زندگی میں میں نے کیا کیا کر لیا
دل کی خاطر کفر بھی اس نے گوارا کر لیا
ایک پتھر خود تراشا خود ہی سجدہ کر لیا
آپ کی چاہت کا ملنا جان لوں گا مفت ہے
جان دے کر بھی اگر میں نے یہ سودا کر لیا
بال و پر اپنے سلامت ڈر اندھیروں کا نہیں
چار تنکے جب بھی پھونکے ہیں اجالا کر لیا
درد بخشا چین چھینا دل کے ٹکڑے کر دیئے
ہائے کس ظالم پہ میں نے بھی بھروسہ کر لیا
شوقؔ جب تک سانس ہے تب تک ہے امید حیات
کیوں ابھی سے آپ نے دل اپنا چھوٹا کر لیا
غزل
دل دیا وحشت لیا اور خود کو رسوا کر لیا
عبدالطیف شوق