دل دے رہا تھا جو اسے بے دل بنا دیا
آسان کام آپ نے مشکل بنا دیا
ہر سانس ایک شعلہ ہے ہر شعلہ ایک برق
کیا تو نے مجھ کو اے تپش دل بنا دیا
اس حسن ظن پہ ہم سفروں کے ہوں پا بہ گل
مجھ بے خبر کو رہبر منزل بنا دیا
اندھا ہے شوق پھر نظر امکان پر ہو کیوں
کام اپنا دل نے آپ ہی مشکل بنا دیا
دوڑا لہو رگوں میں بندھی زندگی کی آس
یہ بھی برا نہیں ہے جو بسمل بنا دیا
غرق و عبور دونوں کا حاصل ہے ختم کار
مجبوریوں نے موج کو ساحل بنا دیا
اس شان عاجزی کے فدا جس نے آرزوؔ
ہر ناز ہر غرور کے قابل بنا دیا
غزل
دل دے رہا تھا جو اسے بے دل بنا دیا
آرزو لکھنوی