دل بجھ گیا تو گرمئ بازار بھی نہیں
اب ذکر بادہ و لب و رخسار بھی نہیں
اپنا تھا خلوتوں میں کبھی پرتو جمال
قسمت میں اب تو سایۂ دیوار بھی نہیں
شکوہ زباں پہ پھول سے احباب کا غلط
اے دوست مجھ کو تو گلۂ خار بھی نہیں
آیا نہ راس آپ کو اے شیخ روز حشر
اور لطف یہ ہے آپ گناہ گار بھی نہیں
قائم ہوں اپنی توبہ پہ میں آج بھی مگر
کوئی حسیں پلائے تو انکار بھی نہیں
کیا کیجیئے نمائش غم خون دل کے بعد
اب آرزوئے دیدۂ خونبار بھی نہیں
اعلان بے خودی ہے ہر اک قطرۂ لہو
میرے جنوں کی حد رسن و دار بھی نہیں
نور سحر کے نام پہ بھٹکیں نہ قافلے
دراصل ابھی تو صبح کے آثار بھی نہیں
واعظ خیال توبہ بجا ہے مگر ابھی
میں تو بقدر ظرف گناہ گار بھی نہیں
غزل
دل بجھ گیا تو گرمئ بازار بھی نہیں
اعجاز وارثی