دل بھی پتھر سینہ پتھر آنکھ پہ پٹی رکھی ہے
کس نے یہ پانی سے باہر ریت پہ مچھلی رکھی ہے
مانا کہ تعمیر نہیں ہو پائی عمارت رندوں کی
چاند پہ رکھنے والے کی بنیاد ابھی بھی رکھی ہے
یہ بھی انوکھی بات ہے یارو مطلب کیسے سمجھا جائے
املی کے کھٹے پانی پر شہد کی مکھی رکھی ہے
کالے بادل کا رشتہ تو سورج سے نا ممکن ہے
کالی لڑکی کے ہونٹوں پر رات کی رانی رکھی ہے
کوشش تو ناکام رہی ہے ہمت لیکن رکھتا ہوں
طاق میں دیپک کیسے جلے اب گھر میں آندھی رکھی ہے
کیا بولے گا آج ترازو بھید ابھی کھل جائے گا
اک پلڑے میں سچ رکھا ہے ایک میں چاندی رکھی ہے

غزل
دل بھی پتھر سینہ پتھر آنکھ پہ پٹی رکھی ہے
انتظار غازی پوری