دل بھر آئے تو سمندر نہیں دیکھے جاتے
عکس پانی میں اتر کر نہیں دیکھے جاتے
دیکھ اے سست روی ہم سے کنارا کر لے
ہر قدم راہ کے پتھر نہیں دیکھے جاتے
وہ چہک ہو کہ مہک ایک ہی رخ اڑتی ہے
بر سر دوش ہوا پر نہیں دیکھے جاتے
دیکھ اے سادہ دل و سادہ رخ و سادہ جمال
ہر جگہ یہ زر و زیور نہیں دیکھے جاتے
اپنے ہاتھوں میں لکیروں کے سوا کچھ بھی نہیں
درد مندوں کے مقدر نہیں دیکھے جاتے
سر گرفتوں کے لیے گھر بھی قفس ہیں خالدؔ
ہمت اے خیرہ سرو سر نہیں دیکھے جاتے
غزل
دل بھر آئے تو سمندر نہیں دیکھے جاتے
خالد احمد